ثواب
انسان اپنا مفہوم الفاظ کے ذریعہ بیان کرتا ہے، اسی لئے اسے حیوانِ ناطق کہا جاتا ہے۔لیکن یہ عجیب بات ہے کہ رفتہ رفتہ الفاظ باقی رہ جاتے ہیں اورجس مفہوم کے ادا کرنے کے لئے وہ وضع ہوئے تھے وہ مفہوم گم ہو جاتا ہے۔بظاہر یہ چیز کچھ عجیب سی نظر آئے گی کہ الفاظ باقی ہوں اور ان کا مفہوم گم ہو چکا ہو۔لیکن یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو بادنیٰ تعمق ابھر کر سامنے آجاتی ہے۔متعدد الفاظ ہیں جنہیں ہم صبح و شام بلا تکلف استعمال کئے جاتے ہیں لیکن کبھی سوچتے نہیں کہ ان کا صحیح مفہوم کیا ہے۔ مذہبی دوائرِ حیات میں اس قسم کے الفاظ کی بڑی کثرت ہوتی ہے۔اس لئے کہ مذہب کو، جوانسانوں کا خود ساختہ ہوتا ہے ( دین اللہ کی طرف سے ملتا ہے) زندگی کے عملی مسائل سے کچھ واسطہ نہیں ہوتا۔اس کے مباحث نظری، تھیوریٹیکل، ہوتے ہیں اور نظری مباحث میں اس کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی کہ یہ سوچا جائے کہ جو الفاظ ہم استعمال کرتے ہیں ان کا مفہوم کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مذہب چونکہ انسان کے دورِ سحر، میجک ایج، کی یادگار ہےم، اس لئے اس میں سارا زور الفاظ پر دیا جاتا ہے۔ان کے مفہوم سے کچھ مطلب نہیں ہوتا۔سحر کی خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ الفاظ ، بلا مفہوم، کے الٹ پھیر اور اعادہ سے نتیجہ پیدا ہو۔تعویزوں کے الفاظ کو دیکھئے ، عجیب مہملات کا مجموعہ دکھائی دینگے۔ لیکن تعویز لکھنے والے ان کی پابندی پر اس قدر زور دینگے کہ اگر ایک حرف میں بھی ردو بدل ہوجائے تو وہ سمجھ لیں گے کہ اب نتیجہ مرتب نہیں ہوسکتا۔الفاظ بلا مفہوم اور اعمال بلا نتیجہ یہ ہے مذہب کی صحیح تعریف۔
اسلام مذہب کے خلاف ایک صدائے احتجاج تھا۔ وہ مذہب کے بجائے دین لے کر آیا تھا جسے آج کی اصطلاح میں آئینی نظام زندگی کہا جائے گا۔ظاہر ہے کہ نظام زندگی ، نظری مسائل سے نہیں بلکہ زندگی کے عملی مسائل سے بحث کرےگا۔اور جب اس بحث کا دائرہ عملی مسائل ِ حیات پر مشتمل ہوگا تو اس کے الفاظ واضح اور بین مفہوم کے پیکر ہونگے۔اس میں لفظ بلا معنی کا تصور بھی نہیں کیا جا سکے گا۔قانون اور آئین کی دنیا میں کوئی لفظ ایسا نہیں ہوتا جس کا مفہوم ٹھیک ٹھیک متعین نہ کر دیا گیا ہو۔اگر کسی لفظ کی تعریف میں ذرا فرق ہوجائے تو اس سے پورے کا پورا قانون بدل جاتا ہے۔اسی لئے قانون کی کتابوں میں ہر لفظ کی تعریف متعین کر دی جاتی ہے۔مثلاچوری جرم ہے۔قانون کی کتاب میں پہلے یہ بتایا جائے گا کہ چوری کہتے کسے ہیں۔اس لفظ کا مفہوم کیا ہے۔اس متعینہ مفہوم کے مطابق یہ فیصلہ ہوگا کہ فلاں عمل چوری کہلا سکتا ہے یا نہیں۔وقس علی ہذا۔
اسلام جب ایک آئینی اور قانونی نظام زندگی اپنے ساتھ لایا تو ظاہر ہے کہ اس کے ہر لفظ اور ہر اصطلاح کا مفہوم متعین ہوگا۔ بلا تعینِ مفہوم نہ قانون قانون رہ سکتا ہے نہ آئین آئین۔اسلام کا ضابطۂ آئین قرآن ہے ،اور قرآن کا خاصہ ہے کہ وہ اپنے الفاظ کا مفہوم خود متعین کر دیتا ہے، اس لئے کہ وہ کتابِ آئین ہے ، مذہبی منتروں کی کتاب نہیں۔لیکن جب قرآن کا دین مذہب میں تبدیل ہوگیا تو جس طرح ہر مذہب کی حالت ہے، اس کے الفاظ تو باقی رہ گئے لیکن ان الفاظ کا مفہوم نگاہوں سے اوجھل ہوگیا۔اب حالت یہ ہے کہ ہم صبح سے شام تک ان الفاظ کو دہراتے ہیں، لیکن کبھی نہیں سوچتے کہ ان الفاظ کا مفہوم کیا ہے۔انہی الفاظ میں ایک لفظ "ثواب" بھی ہے۔مذہب پرست طبقہ میں بات بات میں اس لفظ کو دہرایا جائے گا کہ یہ کرنے سے اتنا ثواب ہوتا ہے، وہ کرنے سے اتنا ثواب ملتا ہے۔جس بات کے متعلق پوچھئے کہ ایسا کرنے سے کیا ہوگا تو اس کا جواب یہی ملے گا کہ اس سے ثواب ہوگا۔لیکن اگر آپ پوچھ بیٹھیں کہ صاحب! ثواب ہوتا کیا ہے، تو آپ حیران رہ جائیں گے کہ اس کا کوئی معقول جواب آپ کو نہیں ملیگا۔آپ کو یہ بات بظاہر تعجب انگیزی دکھائی دے گی، کہ ہر بات جس پر پہلے پہل غور کرنے کی دعوت دی جائے تعجب انگیز نظر آیا کرتی ہے، یہ امر واقعہ ہے،دور نہ جائیے ، خود اپنے آپ سے سوال کرکے دیکھئے۔آپ نے بھی تو اس لفظ کو متعدد بار بولا ہوگا۔ذرا سوچئے تو سہی کہ آپ کے ذہن میں اس کا مفہوم کیا ہے۔آپ کو اپنے ذہن سے زیادہ سے زیادہ یہ جواب ملیگا کہ ثواب کوئی ایسی چیز ہے جس سے قیامت میں جہنم کے عذاب سے نجات ملیگی۔یعنی یہ کوئی ایسی چیز نہیں جس کا کوئی اثر آپ کی ذات پر مرتب ہوتا ہو۔یا جس کا تعلق آپ کی اس زندگی سے ہو۔اس کا تعلق آخرت کی زندگی سے ہے اور وہاں کے متعلق کہا نہیں جا سکتا کہ کیا ہوگا، اور کیسے ہوگا۔یہ ہے ثواب کا وہ مفہوم جو آپ کے ذہن میں آئے گا، یا آپ کو وہ شخص بتائے گا جس سے آپ اس کا مفہوم پوچھیں گے۔
غور کیجئے کہ یہ لفظ ایسا ہے جس کا استعمال بات بات میں ہوتا ہے لیکن اس کا مفہوم ایسا مبہم بتایا جاتا ہے جس سے کچھ پلّے ہی نہیں پڑتا کہ بات کیا ہوئی۔آپ سوچئے کہ اس کا نتیجہ کیا ہے؟ مذہب پرست طبقہ ہمیشہ شکایت کرتا رہتا ہے کہ مسلمان اسلام احکام کی پرواہ نہیں کرتے۔ان کی زندگی مذہبی نہیں رہی، وہ اوامر اور نواہی کے پابند نہیں۔یہ لوگ شکایت تو مسلسل کرتے رہتے ہیں لیکن کبھی اتنا سوچنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے کہ بالآخر اس کی وجہ کیا ہے؟
اسکی وجہ ظاہر ہے، آپ ایک بچے سے تواس طرح کام کرا سکتے ہیں کہ یہ کرو، وہ نہ کرو، بغیر بتائے ہوئے کہ ایسا کرنے سے کیا ہوگا اور ایسا نہ کرنے سے کیا۔لیکن جب وہی بچہ صاحبِ فکر و شعور ہوجائے گا تو اس وقت آپ اس سے اس طرح احکام نہیں منوا سکتے۔اس وقت آپ کو بتانا ہوگا، اسے سمجھاناہوگا کہ ایسا کرنے سے کیا ہوگا، اور ایسا نہ کرنے سے کیا۔مذہب کی تاکید یہ ہوتی ہے کہ ان معاملات میں عقل کو کوئی دخل نہیں، اس لئے تم "کیوں" نہ پوچھو، جو کچھ کہا جاتا ہے چپکے سے کئے جاؤ۔انسانی ذہن اپنے عہدِ طفولیت میں تو اس طریق کار پر عمل پیرا ہوسکتا تھ لیکن جب وہ "کیوں" کے مقام تک پہنچ جائے تو پھر مجرد حکم اس کے لئے محرک عمل نہیں ہوسکتا۔وہ حکم کی لِم بھی سمجھنا چاہتا ہے۔چونکہ قرآن مذہب نہیں بلکہ دین لایا تھا اس لئے اس نے ذہنِ انسانی کے اس تقاضے کو نظر انداز نہیں کیا، بلکہ کتاب(قانون یا حکم) کے ساتھ حکمت(اس کی لِم۔"کیوں") بھی بتا دی اور ہر مقام پر واضح کر دیا کہ ایسا کرنے سے کیا ہوگا۔ اور ایسا نہ کرنے سے کیا۔ اس نے اپنی دعوت کی بنیاد ہی بصیرت پر رکھی ۔اس نے واضح الفاظ میں کہہ دیا کہ صاحبانِ عقل و بصیرت خود دیکھ سکتے ہیں کہ اس نظامِ حیات کے نتائج کیا ہوں گے۔اس نے کھلے طور پر کہہ دیا کہ بد ترین خلائق (شرالدواب) وہ انسان ہیں جو عقل و بصیرت سے کام نہیں لیتے۔دنیا کو کوئی نظام ہو، اس کی جاذبیت کا راز اس کے نتائج میں مضمر ہوتا ہے، اور نتائج اس ٹھوس حقیقت کانام ہے جو بلا حجاب و نقاب سامنے آجائے۔مبہم الفاظ اور غیر متعین مفہوم کبھی نتائج کی جگہ نہیں لے سکتے۔یہ ہے اصل وجہ اس امر کی کی مسلمان"مذہی احکام" کی پابندی نہیں کرتے۔مبہم الفاظ سوچنے والے ذہن کے لئے کبھی وجۂ کشش نہیں ہوسکتے۔ان سے صرف وہی طبقہ متمسک رہ سکتا ہے جس کاذہن ہنوز عہدِ طفولیت میں ہو۔ سوچنے والا ذہن، کتاب (حکم) کے ساتھ اس کی حکمت(لِم) کا بھی تقاضا کرتا ہے۔اور حکم کی لِم اس کے نتیجہ ہی سے سمجھ میں آسکتی ہے۔دین (نظامِ زندگی) نتائج پیش کرتا ہے اور یہی نتائج اس کی کشش کا باعث ہوتے ہیں۔
اس تمہید کے بعد لفظ ثواب پر غور کیجئے۔ثاب کے لغوی معنی ہیں کسی چیز کا لوٹ کر آجانا۔کسی حوض کا اس طرح لبالب بھرے رہنا کہ جتنا پانی اس میں سے نکلے اتنا ہی اس میں واپس آتا رہے۔استثاب، ریسٹو ریشن، کہتے ہیں ۔
آپ کوئی کام کیجئے اس میں کچھ نہ کچھ صرف ہوگا۔مال ، وقت، توانائی، انرجی، ذہنی ہو یا جسمانی،اگر اس کام کا نتیجہ اس صرف شدہ توانائی کو واپس لے آتا ہے، تو وہ نتیجہ اس کا ثواب ہوگا۔ثاب جمسہ کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ جسم سے جس قدر توانائی زائل ہوجائے، وہ پھر واپس آجائے، اور اس طرح جسم تنو مند اور توانا رہے۔آپ صبح سے شام تک کوئی کام کرتے ہیں جس کے معاوضہ میں آپ کو کچھ رقم ملتی ہے۔لیکن اس کام کے کرنے میں آپ کی توانائی صرف ہوتی ہے ، اس کے لئے آپ اچھی غذا کھاتے ہیں جس سے آپ کی صرف شدہ توانائی واپس مل جاتی ہے،اس طرح آپکے اس طریق کار کی رُو سے آپ کی توانائی بھی برقرار رہتی ہے اور جو کچھ آپ کماتے ہیں وہ آپ کا منافع ہوتا ہے۔اول الذکر توانائی کے واپس آجانے کو ثواب کہتے ہیں اور ثانی الذکر (حاصلِ محنت) کو فوز یعنی ایچئومنٹ۔یا مثلاً آپ سیر کرتے ہیں، ظاہر ہے کہ اس میں آپ کی کچھ توانائی صرف ہوتی ہے لیکن وہ سیر آپ کی صحت کیلئے مفید ہے۔اس لئے کہ وہ صرف شدہ توانائی کو واپس لاتی ہے اور آپ کی صحت کو بھی درست کرتی ہے جس سے آپ کی نشو ونما ہوتی ہے۔یہ سیر ثواب اور فوز ہے۔اسلام کے نظام(الدین) میں ہر فرد اپنے مفوضہ فرائض کو سر انجام دیتا ہے۔ظاہر ہے کہ اس میں ان افراد کا وقت، مال ، توانائی، ذہنی اور قلبی قوتیں صرف ہوتی ہیں۔اس نظام کے اجتماعی نتائج ان صرف شدہ قوتوں اور قدروں کو بھی واپس دیتے ہیں اور اس کے ساتھ ارتقائے انسانیت کا وہ مقصدِ کلی بھی پورا ہوتا اور آگے بڑھتا رہتا ہے جس سے انسان کارگۂ عالم کے تخلیقی پروگرام میں اللہ کا رفیق بنتا ہے۔اس قرآنی نظامِ زندگی کے نتائج کو "ثواب اللہ" کی اصطلاح سے تعبیر کیا گیا ہے۔جہاں فرمایا کہ ثواب اللہ خیر لمن امن و عمل صالحاً (28/80) " جس نے اس نظام کی حقانیت کو تسلیم کر لیا اور اس کے بعد ایسے کام کئے جو انسانی معاشرہ میں ہمواری کا موجب ہوں تو ان کے لئے اس نظام کے نتائج بڑے خوشگوار ہوں گے"۔ لہٰذا "ثواب اللہ " کے معنی ہیں اس نظامِ زندگی کے جیتے جاگتے نتائج جو قرآنی اصولوں کے مطابق قائم کیا جائے۔
دنیا کے عام نظامہائے معاشرت، جن کی اساس مستقل اقدار نہیں ہوتی، طبعی قوانین کے مطابق اپنے نتائج مرتب کرتے ہیں۔جو شخص اچھی خوراک کھائے گا تندرست و توانا رہے گا۔لیکن ان نتائج کا تعلق انسان کے پیش پا افتادہ مفاد تک محدود ہوتا ہے۔وہ زندگی کی جوئے رواں کے ساتھ ساتھ نہیں چلتے، ا نہیں قرآن ثواب الدنیا کہہ کر پکارتا ہے۔وہ ان لوگوں کو مخاطب کرکے کہتا ہے کہ ذرا سوچو ! یہ تمہاری کس قدر بھول ہے کہ تم اتنی تگ و تاز بھی کرتے ہو، لیکن اس کے بعد صرف قریبی مفاد پر اکتفا کرکے بیٹھ جاتے ہو۔اگر تم اپنے معاشرے کی مستقل اقدار(وحی) کے خطوط پر متشکل کرلو تو اسی تگ و تاز سے یہ قریبی مفاد بھی حاصل ہوجائیں اور ان کا سلسلہ آگے بھی بڑھتا جائے۔ان نتائج کا نام ثواب الدنیا و الاخرۃ ہے۔ وہ کہتا ہے کہ من کان یرید ثواب الدنیا جو لوگ صرف قریبی مفاد تک ہی رک کر رہ جاتے ہیں،ان سے کہو کہ فعندہ اللہ ثواب الدنیا والاٰخرۃ (4/133) یعنی نظامِ الہٰی میں قریب اور بعید دونوں مفاد حاصل ہوتے ہیں۔سو بتاؤ کہ یہ نظام اچھا ہے یا تمہارا نظام؟ ظاہر ہے کہ نظام وہی اچھا ہوگا جس کے نتائج کا سلسلہ حیاتِ انسانی کے ساتھ ساتھ مسلسل قائم رہے۔اسی لئے قرآن کریم نے کہا ہے کہ اپنے سامنے ہمیشہ یہ آرزو رکھو اٰتنا فی الدنیا حسنۃ و فی الاخرۃ حسنۃ، یعنی دنیا او رآخرت دونوں خوشگوار اور حسین زندگی۔قرآن کی رُو سے نظامِ زندگی کے تین انداز ہوسکتے ہیں۔ایک وہ نظام جس کے خوشگوار نتائج انسانی زندگی کے ساتھ ساتھ رواں دواں چلتے رہیں۔اور اس طرح یہاں سے وہاں تک شاہراہ حیات شگفتہ و شاداب رہے۔یہ ہے الدین کا وہ نظام جس میں ثواب الدنیا و الاخرۃ دونوں حاصل ہوتے ہیں۔
دوسرا نظام وہ ہے جسے دنیا کی قومیں اپنی مصلحت کوشیوں کے ماتحت وضع کرتی ہیں اور اپنی نگاہوں کو صرف اسی زندگی تک محدود رکھتی ہیں۔اس نظامِ زندگی کے نتائج اسی دنیا تک محدود رہتے ہیں۔ ومالہ فی الاخرۃ من خلاق اس کے بعد کی زندگی میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہوتا۔یہ خالص دنیا داری زندگی ہے۔
تیسرا نظام وہ جس میں نہ اس زندگی کی خوشگواریاں حاصل ہوتی ہیں نہ اس کے بعد کی زندگی کی۔یہ ہے مذہب کی زندگی۔اس زندگی میں انسان اپنے آپ کو اس دھوکے میں رکھتا ہے کہ اگر ہماری موجودہ زندگی ذلت و خواری کی زندگی ہے تو کوئی بات نہیں، یہ زندگی چند روزہ ہے، اس کے بعد حیات ابدی کی ہمیشہ رہنے والی خوشگواریوں کے ہم ہی مالک ہیں۔لیکن قرآن کی رُو سے یہ بہت بڑا دھوکہ ہے۔نفس کا فریب ہے۔وہ کہتا ہے کہ ھل ننبئکم بالاخسرین اعمالاً کیا تمہیں بتاؤں کہ وہ لوگ کون ہیں جن کے کاموں کا نتیجہ خسارہ ہی خسارا ہے الذین ضل سعیھم فی الحیوٰۃ الدنیا یہ وہ لوگ ہیں جن کی کوشش دنیاوی زندگی میں غلط راہوں پر پڑجاتی ہے۔ و ھم یحسبون انھم یحسنون صنعا ۔لیکن وہ بزعم خویش یہ سمجھتے ہیں کہ ہم بڑے نیک کام کر رہے ہیں۔اولئک الذین کفر وا باٰیات ربھم ولقائہٖ یہ وہ لوگ ہیں جو در حقیقت قانونِ الٰہی کا عملی انکار کرتے ہیں۔اس طرح کہ حقائق کا آمنا سامنا کرنے کی بجائے وہ ان سے گریز کی راہیں نکالتے ہیں۔فحبطت اعمالھم ان کے کام بظاہر خوش آئند دکھائی دیتے ہیں لیکن ان کا نتیجہ کچھ بھی نہیں ہوتا۔فلا نقیم لھم یوم القیامۃ وزنا (18/103-104)یہ اعمال ایسے بے نتیجہ ہوتے ہیں کہ ظہورِ نتائج کے سلسلے میں ان کا وزن تک معلوم کرنے بھی ضرورت نہیں ہوتی۔وہ بالکل بے وزن ہوتے ہیں۔مذہب پرست طبقہ اپنے آپ کو یہ کہہ کر مطمئن کر لیتا ہے کہ اگر ہماری آج کی دنیا خوشگوار نہیں تو نہ سہی آخرت کی نعمتیں تو ہمارے ہی لئے ہیں لیکن یہی ان کی بھول ہے۔قرآن کہتا ہے کہ من کان فی ھٰذہٖ اعمیٰ فھو فی الاخرۃ اعمیٰ اِس دنیا کا اندھا اُس دنیا میں بھی اندھا ہی رہے گا۔ یہ ہو نہیں سکتا کہ آج کی دنیا ذلیل اور خوار ہو اور کل کی دنیا میں ساری سرفرازیاں انہی کے حصے میں آجائیں۔لہٰذا (1) اسلام کے نظامِ حیات میں امروز اور فردا دونوں خوشگوار ہوتے ہیں (2) عام دنیاوی نظام میں صرف امروز خوشگوار ہوتا ہے (3) اور انسانوں کے خودساختہ مذہب کی دنیا میں نہ آج خوشگوار ہوتا ہے نہ کل۔ایک مقدس دھوکہ ہوتا ہے اور بس۔وھم یحسنون صنعا۔مسلمان صدیوں سے اس مقدس دھوکے میں مبتلا ہے۔
قرآن کی رُو سے ثواب کے معنی ہیں اعمالِ حیات کے وہ زندہ اور مثبت نتائج جو محسوس شکل میں ہمارے سامنے آجائیں اور جس سے ہماری دنیاوی زندگی بھی خوشگوار ہو اور موت کے بعد کی زندگی بھی۔جو اعمال ِ حیات اپنے محسوس نتائج پیدا نہیں کرتے یاد رکھئے ان کا کوئی ثواب نہیں ملتا۔
اب آپ اپنے لئے خود میزان قائم کرکے دیکھ لیجئے کہ آپ کے کون کون سے اعمال ایسے ہیں جن کا ثواب ہوتا ہے اور کون کون سے ایسے ہیں جن کا کوئی ثواب نہیں ہوتا۔
اے مسلماں! اپنے دل سے پوچھ ملّا سے نہ پوچھ
__._,_.___
Enjoy your stay at Rukhsana Group.
**********************************
Moderators Rukhsana Group:
Kazakhstani1303 & Mumtaz Ali.
Contact us at: kazakhstani1303@gmail.com
Rukhsana-owner@yahoogroups.com
**********************************
**********************************
Moderators Rukhsana Group:
Kazakhstani1303 & Mumtaz Ali.
Contact us at: kazakhstani1303@gmail.com
Rukhsana-owner@yahoogroups.com
**********************************
.
__,_._,___
0 comments:
Post a Comment