• Feed RSS

LinkWithin

Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...
 
__._,_.___
Recent Activity:
Enjoy your stay at Rukhsana Group.
**********************************                      
Moderators Rukhsana Group:
Kazakhstani1303 & Mumtaz Ali.
Contact us at: kazakhstani1303@gmail.com
Rukhsana-owner@yahoogroups.com 
**********************************                      
.

__,_._,___
 



Om namha shivay
------------------------------
On Thu 25 Jul, 2013 3:06 AM PDT Vivek Rohela wrote:

>
>Sawan ka mahina chal raha hai yeh mahina pure sansaar main sabse acchha mana jata hai. Sawan ke din bhole nath baba ke hote hai. Isliye sab milkar bolo bhole nath ki jai. Bhole baba ki saran main aane wale har ek insaan ko sukh ki pirapti hoti hai. Or mrne ke baad wo insaan sidha shivdham jata hai jo swarg ya jise hum jannat kahete hai wo in sabse upar hai ek baar sab hath jod kr bhole nath se pirarthna kare or bole dev dev mahadev shivay.

__._,_.___
Recent Activity:
Enjoy your stay at Rukhsana Group.
**********************************                      
Moderators Rukhsana Group:
Kazakhstani1303 & Mumtaz Ali.
Contact us at: kazakhstani1303@gmail.com
Rukhsana-owner@yahoogroups.com 
**********************************                      
.

__,_._,___
 





اطاعتِ رسول
دین کا مقصود و مطلوب یہ ہے کہ انسان کو دوسرے انسانوں کی محکومی سے نکال  کر قوانینِ الٰہی کی اطاعت میں لایا جائے۔اس کے لئے قرآن نے واضح الفاظ میں کہہ دیا کہ : ماکان لبشر ان یؤ تیہ اللہ  الکتٰب والحکمہ والنبوۃ ثم یقول للناس کونواعبادًا لی من دون اللہ و لٰکن کونوا ربّٰنیّن (3/78) "کسی انسان کواس کا حق نہیں پہنچتا کہ اللہ  اُسے کتاب اور حکومت اور نبوت دے اور وہ لوگوں سے کہے کہ تم اللہ کو چھوڑ کر میری محکومی اختیار کرو۔اسے یہی کہنا چاہئے کہ تم سب ربّانی بن جاؤ"۔
اسی حقیقت کو اس نے دوسری جگہ ان الفاظ میں دہرایا ہے کہ: ان الحکم الّا للہ، امرالّا تعبدوآالّا ایّاہُ، ذٰلک الدّین القیّم ولٰکن اکثر النّاس لا یعلمون (12/40)"یاد رکھو حکومت صرف اللہ کے لئے ہے۔اس نے حکم دیاہے کہ تم اس کے سوا کسی اور کی محکومیت اختیار نہ کرو۔یہی دین ِ محکم ہے۔لیکن اکثر لوگ اس حقیقت کو نہیں جانتے"۔
اس مقام پر اس حقیقت کو بھی سمجھ لینا چاہئے کہ قرآن کی رُو سے اللہ کی محکومیت اور اللہ کی عبادت سے مراد ایک ہی ہے۔یعنی قوانینِ الٰہی کی اطاعت۔پہلے کہا کہ حکومت صرف اللہ کے لئے ہے۔اور اس کے بعد کہا کہ اُس نے حکم دیا ہے کہ تم اس کے سوا کسی اور کی عبادت مت کرواب ظاہرہے کہ اگر عبادت سے مراد پرستش لی جائے، تو آیت کے کچھ معنی ہی نہیں بنتے۔یعنی حکومت صرف اللہ کے لئے ہے، تم صرف اس کی پرستش کرو۔اللہ کی پرستش تو ہر حکومت میں ہو سکتی ہے۔اقوام متحدہ کے "بنیادی حقوق انسانیت" کے منشور  کے مطابق "پرستش کی آزادی" کو انسانوں کا بنیادی حق قرار دیا ہے۔اور اسے تمام اقوام عالم نے تسلیم کیا ہے۔اس لئے پرستش کے لئے اللہ کی حکومت کا موجود ہونا ضروری نہیں۔اللہ کی پرستش تو ہم انگریز کے عہدِ حکومت میں بھی کرتے تھے، اور آج بھی تمام دنیا میں مسلمان اللہ کی پرستش کرتا ہے۔اس لئے قرآن کی رُو سے اللہ کی عبادت سے مراد ہی اس کی محکومیت اختیار کرنا ہے۔اسی حقیقت کو قرآن نے سورۂ کہف کی دو آیات میں یوں واضح کیا ہے: لا یشرک بعبادۃ ربّہ احداً (18/110) "اُسے چاہئے کہ اللہ کی عبادت میں کسی اور کو شریک نہ کرے"۔اور دوسری جگہ ہے: لایشرک فی حکمہٖ احدًا (18/26)"اللہ اپنی حکومت میں کسی کو شریک نہیں کرتا"۔ایک جگہ عبادت کا لفظ اور اُسی مفہوم کے لئے دوسری جگہ حکومت کا لفظ۔
لیکن اللہ تو ہمارے سامنے محسوس شکل میں نہیں آتا۔ہم اس کے احکام کو براہ راست سن نہیں سکتے۔اس لئے اس کی اطاعت کس طرح کی جائے؟ اس کے لئے اس نے خود ہی بتا دیا کہ یہ اطاعت اس کتاب کی رُو سے کی جائے جسے اس نے نازل کیا ہے۔
افغیر ا للہ ابتغی حکماً وّ ھو الذی انزل الیکم الکتٰب مفصلاً (6/114) "کیا میں اللہ کے سوا کسی اور کو حاکم بنالوں۔حالانکہ اس نے تمہاری طرف اپنی وہ کتاب نازل کر دی ہے جو ہر بات کو نکھار کر بیان کر دیتی ہے"۔
اس کتاب کے علاوہ اور کسی کی اطاعت جائز نہیں۔کیونکہ وہ غیر اللہ کی اطاعت ہوجائے گی۔: اتّبعو مآ انزل الیکم من ربکم ولا تتبعو ا من دونہٖ اولیآ ء ، قلیلا ً ما تذکرون (7/3) "تم ا س کتاب کا اتباع کرو جو تمہارے اللہ نے تمہاری طرف نازل کی ہے۔اور اس کے سوا کسی کارساز کا اتباع نہ کرو۔لیکن بہت کم لوگ ہیں جو اس اہم حقیقت کو اپنے سامنے رکھتے ہیں"۔
یہی کفر اور ایمان کا نقطۂ امتیاز ہے۔ ومن لم یحکم بما انزل اللہ فاولٰئک ھم الکافرون(5/44) "جو اس کے مطابق فیصلے نہیں کرتا جسے اللہ نے نازل کیا ہے تو یہی لوگ کافر ہیں"۔
اگر اللہ کی اطاعت سے مقصود محض اللہ کی پرستش ، ورشپ، پوجا پاٹ ،بندگی ہوتا تو ہر شخص اپنی اپنی جگہ اللہ کی کتاب کی اطاعت کر سکتا تھا۔کوئی مسجدمیں، کوئی مندر میں،   کوئی صومعہ میں، کوئی کلیسامیں، کوئی خانقاہ میں، کوئی زاویہ میں۔"مذہب" کی رُو سے اللہ کی اطاعت کا یہی مفہوم ہے۔اس کی رُو سے "مذہب" اللہ اور بندے کے درمیان پرائیویٹ تعلق کانام ہے جسے عملی زندگی سے کچھ واسطہ نہیں، لہٰذا "مذہب" میں ہر انسان اپنے اپنے طور پر اللہ کی اطاعت کرتا ہے۔لیکن "دین" کی رُو سے حقیقت یہ نہیں۔اس کی رُو سے اللہ کی اطاعت سے مفہوم یہ ہے کہ انسان اور انسان کے مابین جس قدر متنازعہ فیہ امور ہوں اُن کا فیصلہ قوانین الٰہی کی رُو سے کیا جائے۔ظاہر ہے کہ یہ صورت پیدا نہیں ہوسکتی جب تک کوئی ایسا مقام نہ ہو جہاں سے دو فریق اپنے متنازعہ فیہ معاملہ کا فیصلہ کرائیں۔ا س کے لئے کسی حکم کی ضرورت ہوگی۔بالفاظ دیگر، مذہب میں ہر شخص اللہ کی اطاعت انفرادی طور پر کرتا ہے، لیکن دین میں اللہ کی اطاعت اجتماعی طور پر کرائی جاتی ہے۔لہٰذا مذہب میں اطاعت کے لئے صرف  اللہ  کی کتاب کافی ہوتی ہے۔ لیکن دین میں اللہ کی اطاعت کے لئے کتاب کے علاوہ کسی جیتی جاگتی شخصیت کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔اسلام، دین(نظام) ہے، مذہب نہیں۔اس لئے اس میں تنہا کتاب کافی نہیں، اس کتاب کے مطابق اطاعتِ الٰہی کرانے والا بھی ضروری ہے۔یہ مرکزی شخصیت اللہ کا رسول ہوتا ہے۔جو لوگ رسول کی اطاعت ضروری نہیں سمجھتے اور اطاعت کے لئے مجرد قرآن کو کافی سمجھتے ہیں وہ دین اسلام کو اس"مذہب" کی سطح پر لے جاتے ہیں جو دیگر اقوام عالم میں رائج ہے۔یہ وجہ ہےکہ قرآن نے واضح الفاظ میں کہہ دیا کہ اللہ نے کتاب کے ساتھ ہمیشہ رسول کو بھیجا ، جس کی اطاعت اللہ کی اطاعت ہوتی ہے کیونکہ رسول، اللہ کی اطاعت کراتا ہے۔لہٰذا  ومن یطع الرسول فقد اطاع اللہ (4/80) "جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی"۔لیکن یہ اطاعت رسول کی ذات کی اطاعت نہیں ہوتی کیونکہ اللہ نے واضح الفاظ میں کہہ دیا ہے کہ کسی نبی کو بھی اس کا حق نہیں پہنچتا کہ وہ لوگوں سے اپنی اطاعت کرائے۔اس لئےخود رسول اللہ ﷺ سے کہدیا گیا کہ تم نے لوگوں کے متنازعہ فیہ امور کے فیصلے اللہ کے مطابق کرنے ہیں: فاحکم بینھم بما انزل اللہ (5/48) "تم ان کے درمیان کتاب اللہ کے مطابق فیصلے کرو"۔
اب بات یوں ہوئی کہ اللہ کی اطاعت براہ راست نہیں کی جاسکتی۔اس کی اطاعت رسول کی وساطت سے کی جاسکتی ہے۔لیکن رسول چونکہ بشر ہوتا ہے، اور کسی بشر کی اطاعت جائز نہیں، اس لئے رسول کی اطاعت اس کی اطاعت نہیں بلکہ اللہ کی اطاعت ہوتی ہے۔اگرچہ نظر بظاہر اطاعت اسی رسول کے فیصلوں کی ہورہی ہوتی ہے۔انسان اور اللہ کے قانون کی اطاعت کا یہ فرق اتنا لطیف اور باریک تھا کہ آج سے پندرہ سو سال پہلے جب لوگ اشخاص (بادشاہوں) کی اطاعت ہی کے خوگر تھے ،نظام ( قانون )کی اطاعت کے نہیں ۔اس فرق کو سامنے لانا قرآن ہی کا اعجاز تھا۔ وہ ایک جگہ اللہ کی عبادت کا ذکر کرتا ہے تو اس خیال سے کہ اس سے لوگ اپنے اپنے طور پر " خدا پرستی اور نیک عملی" کی زندگی نہ سمجھ لیں، ساتھ ہی رسول کی اطاعت کا بھی ذکر کر دیتا ہے۔لیکن پھر اس خیال سے کہ اس سے کہیں ایک شخص کی اطاعت نہ سمجھ لی جائے، جیسا کہ بادشاہوں کی اطاعت ہوتی تھی،توجہ کو اللہ کی طرف منعطف کرادیتا ہے اور یوں  اللہ سے رسول اور رسول سے اللہ کی طرف لے جاتا ہوا  اس اہم حقیقت کو اچھی طرح ذہن نشین کراتا چلا جاتا ہے۔سورۂ نساء کی آیات میں دیکھئے کہ اس لطیف نکتہ کو کس حسن و خوبی سے بیان کیا گیا ہے۔پہلے اس اصول کو بیان کیا کہ  وما ارسلنا من رسول الا لیطاع باذن اللہ "ہم نے ہر رسول کو اس لئے بھیجا تھا کہ اللہ کے حکم کے مطابق اس کی اطاعت کی جائے"۔اس اصولی حقیقت کو بیان کرنے کے بعد اس کے عملی پہلو کو سامنے لایا گیا اور کہا  ولو انھم از ظلموآ انفسھم جآ ءُ وک ان لوگوں سے جب قانون شکنی ہوگئی تھی، انہوں نے حکم الٰہی کی خلاف ورزی کی تھی تو اس کے ازالے کی شکل یہ نہیں تھی کہ یہ اپنی جگہ"توبہ استغفار" کر لیتے۔اس کے لئے ضروری تھا کہ جاءُوک یہ تیرے پاس آتے۔ اس سے ظاہر ہے کہ دین (نظام الٰہیہ) میں کسی ایسی شخصیت کا ہونا ضروری ہے جس کی طرف رجوع کریں۔لیکن اس سے ذہن اس طرف جاسکتاتھا کہ اس باب میں صاحبِ اختیار (اللہ نہیں بلکہ) وہ شخصیت ہے جس کی طرف رجوع کیاجائے گا۔اس لئے اس کے ساتھ ہی کہہ دیا کہ جآءُوک۔فاستغفرو اللہ"آتے  تو تیرے پاس لیکن اپنے جرم کی پاداش سے حفاظت، جسے عرف ِ عام میں معافی یا بخشش کہتے ہیں،اللہ سے مانگتے"۔ اس سے پھر ذہن اس طرف جا سکتا تھا کہ اگر اللہ ہی سے حفاظت طلب کرنی تھی تو یہ اپنے اپنے ہاں براہ راست اللہ سے معافی مانگ لیتے۔اس کے لئے رسول کے پاس آنے کی ضرورت کیا تھی؟ اس کے لئے وضاحت کر دی  واستغفر لھم الرسول۔یہ حفاظت طلبی اور عفو خواہی، اللہ اور بندے کے درمیان انفرادی طور پر براہ راست نہیں ہوسکتی۔اس کے لئے ضروری ہے کہ رسول بھی بیچ میں ہو اور وہ ان کے لئے حفاظت طلب کرے۔
اب ظاہر ہے کہ یہ معانی رسول ہی کی زبان سے عطا ہوئی۔لیکن اس خیال سے کہ یہ نہ  سمجھ لیا جائے کہ اس میں اللہ کو تو کوئی واسطہ ہی نہیں رہا  ، اسے پھر دہرایا کہ اگر وہ ایسا کرتے کہ اپنی حفاظت طلبی اور عفو خواہی کے لئے رسول کے پاس آتے اور رسول حالات کے مطالعہ اور ان کی بات سننے کے بعد مطمئن ہوجاتا کہ اُن کا جرم قانونِ الٰہی کی رُو سے قابلِ معافی ہے تو وہ انہیں معافی دے دیتا۔لیکن یہ معانی در حقیقت قانونِ الٰہی کی رُو سے معافی   ہوتی  لوجدوا اللہ توابا رحیماً (4/64) تو یہ اللہ کو توبہ قبول کرنے والا اور سامانِ رحمت عطا کرنے والا پاتے۔
اس کے بعد اگلی آیت میں بات صاف کردی کہ دین میں متنازعہ فیہ امور میں اللہ کے احکام کی اطاعت کی عمل شکل کیا ہے۔فرمایا کہ فلا و ربک لا یومنون حتیٰ یحکموک فیما شجر بینھم" نہیں یہ بات نہیں(جیسا کہ یہ لوگ مذہب کے پرانے تصور کے مطابق اپنے دل میں سمجھے بیٹھے ہیں)۔یہ بات یہ ہے کہ تیرا رب اس حقیقت پر شاہد ہے کہ یہ لوگ(اللہ کا مطیع ہونا تو ایک طرف) مومن بھی نہیں ہوسکتے۔جب تک یہ اپنے متنازعہ فیہ امور میں تجھے (کَ) اپنا حَکم نہ بنائیں۔(پہلی آیت میں جاءُوک کہا گیا تھا۔اس سے مراد یہی تھی) یہ تجھے حَکم بنائیں۔تو فیصلہ دے اور یہ تیرے فیصلے کی اطاعت کریں۔لیکن کیسی اطاعت؟ ثم لا یجد وا فی انفسھم حرجاً مما قضیت و یسلموا تسلیماً (4/65) پھر جو کچھ تو فیصلہ کرے اس کے خلاف اپنے دل میں بھی کسی قسم کی گرانی محسوس نہ کریں اور اس کی پوری پوری اطاعت کریں۔اس لئے کہ انسان کسی فیصلہ کے خلاف دل میں گرانی اس وقت محسوس کرتا ہے جب وہ سمجھے کہ یہ شخص اپنا حکم منوا رہا ہے۔لیکن جب حقیقت یہ ہو کہ وہ قانون کی اطاعت کرا رہا ہو تو پھر اُس اطاعت سے دل میں کبیدگی پیدا ہونے کا مطلب یہ ہے کہ آپ کو اس قانون کی صداقت پر ایمان نہیں۔اس لئے شروع میں کہا گیا تھا کہ فلا و ربک لا یومنون،،،،
تصریحات بالا سے واضح ہے کہ اللہ کی اطاعت در حقیقت قوانینِ الٰہیہ(کتاب اللہ) کی ایسی اطاعت ہے جو اس رسول کی وساطت سے کی جائے جو اُس قانون کو نافذ کرتا ہے۔اسی کو قرآن میں "اللہ اور رسول کی اطاعت " کہا گیا ہے۔اگر اس سے اللہ اور رسول الگ الگ اطاعتیں مراد لی جائیں تو یہ چیز خود قرآن کے اس واضح اصول کے خلاف چلی جائے گی کہ کسی بشر کو اس کا حق حاصل نہیں ، خواہ اسے اللہ نبوت و کتاب ہی کیوں نہ عطا کردے کہ وہ لوگوں سے اپنی اطاعت کرائے(3/78) اور اللہ نے رسول کو بار بار بشر (بشر مثلکم) کہا ہے۔قرآن نے اس حقیقت کو (کہ یہ دو الگ الگ اطاعتیں نہیں بلکہ ایک ہی اطاعت ہے) نہایت بلیغ انداز میں بیان کیا ہے اور وہ اس طرح کہ "اللہ اور رسول" کا ذکر کرکے، اس کے بعد ضمائر واحد لائی گئی ہیں۔ اور فعل کے صیغے بھی واحد (حالانکہ) عربی قاعدے کی رُو سے ان مقامات پر ضمائر اور صیغے تثنیہ کے آنے چاہئیں تھے) مثلاً یا یھا الذین اٰمنو اطعیو االلہ و رسولہ ولا  تولو عنہ وانتم تسمعون (8۔20)" اے جماعت مومنین تم اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور اس سے رُوگردانی مت کرو۔انحالیکہ تم سن رہے ہو"۔ یہاں "اللہ اور رسول" (دو) کا ذکر ہے اور عنہُ میں ضمیر واحد ہے۔نیز وانتم تسمعون سے یہ حقیقت بھی واضح ہے کہ اطاعت اس کی کی جاتی ہے جس کی بات سنی جاسکے، جو محسوس طور پر درمیان میں موجود ہو۔ جو محسوس طور پر موجود نہ ہو، عملی معاملات میں اس کی اطاعت کی ہی نہیں جاسکتی۔
الگ الگ اطاعت کا مسئلہ اُس وقت پیدا ہوا جب دین مذہب میں تبدیل ہوگیا، یعنی کتاب تو موجو د رہی، لیکن وہ محسوس اتھارٹی باقی نہ رہی جس نے کتاب اللہ کی اطاعت کرانی تھی۔اب اطاعت انفرادی ہوگئی۔اب یہ سوال سامنے آیا کہ "اللہ اوررسول کی اطاعت" میں اللہ کی اطاعت تو کتاب کی رُو سے کی جاسکتی ہے۔رسول کی اطاعت کس طرح کی جائے؟ اس کے لئے کہا گیا کہ یہ اطاعت رسول اللہ ﷺ کی احادیث کی رُو سے کی جائے گی۔اس کے سوا اس کی کوئی دوسری شکل ہی ذہن میں نہیں آسکتی تھی۔لہٰذا اب رسول کی احادیث کے جمع اور مرتب کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی۔چونکہ یہ چیز ہر شخص کے بس کی بات نہ تھی کہ وہ ہر معاملہ کے متعلق جانتا کہ اس کے متعلق اللہ کی کتاب اور رسول اللہ کی احادیث میں کیا لکھا ہے اس لئے عوام کو لامحالہ صاحبِ علم لوگوں کی طرف رجوع کرنا پڑا۔ اس طرح امت میں پیشوائیت وجود میں آئی اور اس کے ساتھ ہی مختلف فرقے پیدا ہوگئے اور امت کی زندگی کے ہر گوشے میں انتشار ہی انتشار پیدا ہوگیا جو آج تک چلا آرہا ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان حالات میں کیا کیا جائے؟ اس کا جواب صاف اور واضح ہے ۔جس محسوس اتھارٹی(مرکز ملت) کے گم ہوجانے سے یہ سارا انتشار پیدا ہوا ہے اُسے پھر سے قائم کر دیا جائے۔جہاں سے خلافت علیٰ منہاج نبوت کا سلسلہ منقطع ہوا تھا وہیں سے اسے پھر سے جوڑ دیا جائے۔اس وقت اسلام، دین کی شکل کو چھوڑ کر مذہب کی شکل اختیار کر چکا ہے۔اسے پھر دین میں تبدیل کر دیاجائے۔پھر وہ مرکز سامنے آجائے جسے ہم تما م متنازعہ فیہ امور میں اپنا حَکم بنائیں اور اس طرح اللہ کے اُس حکم کی اطاعت کر سکیں۔فلا و ربک لا یومنون حتٰی یحکموک فیما شجر بینھم (4/65)۔




__._,_.___
Recent Activity:
Enjoy your stay at Rukhsana Group.
**********************************                      
Moderators Rukhsana Group:
Kazakhstani1303 & Mumtaz Ali.
Contact us at: kazakhstani1303@gmail.com
Rukhsana-owner@yahoogroups.com 
**********************************                      
.

__,_._,___
 



----- Forwarded Message -----
From: ŠħΔmŠħěŕ ΔfŕîÐî <jimrizin@yahoo.com>
To: Rukhsana Yahoo <rukhsana@yahoogroups.com>
Sent: Friday, 26 July 2013, 0:13
Subject: «*» RUKHSANA«*» Shaheed 'AshfaqUllah Khan Sahab' Ke Aakhiri Lafz......
 
Shaheed 'AshfaqUllah Khan Sahab' Ke Aakhiri Lafz......

"Jaunga Khali Haath Magar Yeh Dard Saath Jayega
Jaaney Kis Din Hindostan Azaad Watan Kehlayega?

Bismil Hindu hey Kehtey hey 'Phir Aaunga , Phir Aaounga'
Phir aakar ke Aey Bharat Maa Tujhey Azaad Karaounga.

Ji Karta he Me Bhi Keh Du Magar Mazhab Say Bandh Jaata hu
Me Musalman Hu Punarjanam Ki Baat Nahi Kar Paata hu

Haan Khuda Mil Gaya To Apani Jholi Phela Dunga
Or Jannat Ke Badley ek Punarjanam He Maanguga "

Jai Hind Jai Hind Jai Hind Jai Hind Jai Hind Jai Hind
 
Afghan Jagir

__._,_.___
Recent Activity:
Enjoy your stay at Rukhsana Group.
**********************************                      
Moderators Rukhsana Group:
Kazakhstani1303 & Mumtaz Ali.
Contact us at: kazakhstani1303@gmail.com
Rukhsana-owner@yahoogroups.com 
**********************************                      
.

__,_._,___

 
 
T2Go-AnimePaint-Thanks
 
  

From: "albarracin1220@gmail.com" <albarracin1220@gmail.com>
To: undisclosed-recipients <undisclosed-recipients>
Sent: Sunday, July 21, 2013 6:38 AM
Subject: «*» RUKHSANA«*» Hermosas flores / Beautiful flowers