لیلٰۃ القدر
قرآن اللہ کی کتاب(قوانین )اور آخری کتاب ہے،جس کے مطابق عدالت ِ الٰہی سے کائناتِ نفس و آفاق کے معاملات کے فیصلے ہوتے اور جس کی رُو سے قوموں کو اُن کی موت و حیات کے پروانے ملتے ہیں۔یہ بڑے شرف و مجد کا حامل اور نوع ِ انسانی کے لئے بے حد نفع رساں اور عزت بخش ہے۔خود واجب التکریم اور جو اسے راہ نما بنالے اسے واجب التکریم بنا دینے کا ضامن اور کفیل ۔قرآنی تعلیم کا نقطۂ ماسکہ یہ ہے کہ کائنات میں ہر شے اللہ کے متعین کر دہ قانون کے مطابق سر گرمِ عمل ہے۔اس کا نتیجہ یہ ہے کہ یہ محیر العقول کارگۂ ہستی جس کے تصور سے ذہن ِ انسانی ورطۂ حیرت میں ڈوب کر رہ جاتا ہےاس حسن و خوبی اور ربط و ضبط سے چل رہا ہے کہ ا س میں نہ کہیں کوئی سقم ہے نہ خلل، نہ فساد نہ انتشار، نہ تزاحم ہے نہ تصادم۔ہر شے اپنے اپنے فریضہ کی ادائیگی میں انتہائی جذب و انہماک سے سرگرداں ہے۔اور اس سعی و عمل کا مجموعی نتیجہ، تعمیر وا رتقاء کی شکل میں ہر آن سامنے آجاتا ہے۔ قرآن کا کہنا یہ ہے کہ اسی قسم کے غیر متبدل قوانین، جنہیں عام طور پر مستقل اقدار کہا جاتا ہے، انسانی زندگی کے لئے بھی مقرر ہیں۔اگر انسانی معاشرہ اُن قوانین کے مطابق چلے تو اس کا نتیجہ خارجی کائنات کی طرح تعمیری اور ارتقائی ہوگا۔ اگر وہ اس کے خلاف چلے تو تخریب اور فساد کے جہنم میں جا گرے گا۔چونکہ انسانی معاشرے کے متعلق قوانین ، مجّرد اور غیر محسوس شکل (ایبسٹرکٹ فارم) میں ہیں او رخارجی کائنات کا نظم و نسق انسان محسوس طور پر اپنے سامنے دیکھ سکتا ہے، اس لئے قرآن ، انسانی زندگی سے متعلق مجّرد قوانین کو کائنات کےمحسوس شواہد کی مثالوں سے سمجھاتا ہے۔یہی طریق اللہ تعالیٰ نے خود قرآن کے تعارف کیلئے اختیار کیا ہے۔مثلاً سورۂ واقعہ میں ہے: فلا اقسم بموٰقع النجوم۔ان سے کہو کہ نہیں بات یہ نہیں کہ میں ان حقائق کو یونہی نظری طور پر بیان کرکے آگے بڑھ جاؤنگا، میں انہیں کائنات کے محسوس نظام کی مرئی مثالوں سے سمجھاؤں گا۔ اس ضمن میں، مَیں سب سے پہلے ستاروں کی گزر گاہوں کو بطور شہادت پیش کرتا ہوں۔وانّہ لقسم لو تعلمون عظیم۔اور اگر تم علم و بصیرت کی بارگاہ سے دریافت کرو تو تمہیں معلوم ہوجائے کہ یہ شہادت کتنی عظیم شہادت ہے۔میں ستاروں کی گزرگاہوں ، ان کے طلوع و غروب کے مواقع ، کو اس حقیقتِ کبریٰ کے اثبات کیلئے بطور شہادت پیش کرتا ہوں کہ انہ لقراٰن کریم (56/75تا 77)۔
سورۂ تکویر میں اسی اجمال کو ذرا تفصیل سے بیان کیاگیا ہے جہاں فرمایا کہ فلا اقسم بالخُنّس الجوار الکُنّس۔نہیں ! میں شہادت میں پیش کرتا ہوں ان سیاروں کو جو پچھلے پاؤں لوٹ جاتے ہیں اور انہیں یعنی جو ایک برق پا غزالہ کی طرح تیزی سے آگے بڑھ کر چھپ جاتے ہیں۔والیل اذا عسعس والصبح اذا تنفس۔اور شہادت میں پیش کرتا ہوں رات کو جب وہ آہستہ آہستہ سے دبے پاؤں آتی ہے اور اسی طرح خاموشی سے دبے پاؤں لوٹ جاتی ہے۔اور صبح کو جب وہ اپنی مسیحا نفسی سے ،ساری دنیا کو حیاتِ نو کا پیام دینے کے لئے مشرق کے جھروکے سے نمودار ہوتی ہے۔میں شہادت میں پیش کرتا ہوں ان تمام کائناتی شواہد کو اس حقیقت ِ کبریٰ کی تبئین کے لئے کہ : انہ لقول رسول کریم (81/15تا 19)۔جس شخص کی زبان سے تم اس قرآن کو سن رہے ہو وہ ہمارا بھیجا ہوا قاصد ہے اور نہایت معزز اور واجب التکریم قاصد یعنی یہ پیغام (قرآن) بھی الکریم(56/77) ہے اور اس کا لانے والا بھی الکریم(81/19)، اورجس (اللہ) نے اسے بھیجا وہ بھی الکریم(82/6)۔
سورۂ الطارق میں ہے والسماء ذات الرجع۔یہ فضائی کرّے جو اس قدر عظیم الجثہ ہونے کے باوجود اس حسن و خوبی سے اپنے اپنے افلاک میں تیرتے پھرتے ہیں (36/40)، اور اپنی گردش سے زندگی کے نئے نئے پہلو سامنے لاتے ہیں وہ اس حقیقت پر شاہد ہیں۔(ہمارے ہاں تمام تفاسیر میں "قسم" کا مطلب قسم کھانا ہی بیان کیا جاتا ہے۔اس کے معنی شہادت دینے کے بھی ہیں کہ انسان تو چلئے مان لیا کہ اپنےآپ کو سچا ثابت کرنے کے لئے قسم کھاتا ہے لیکن یہاں یہ بات غور طلب ہے کہ اللہ کو بھلا اپنے دعویٰ کو سچا ثابت کرنے کیلئےقسم کھانے کی کیا ضرورت ہے۔) اور یہ زمین جو بیج کو پھاڑ کر اس میں سے کونپل کی شکل میں ایک نئی زندگی کی نمود کرتی ہے(والارض ذات الصدع) یہ بھی اس حقیقت پر گواہ ہے کہ : انہ لقول فصل۔قرآن ایک فیصلہ کن حقیقت ہے۔اس میں جو کچھ کہا گیا ہے وہ اٹل ہے۔وما ھو بالھزل(86/11تا 14) یونہی مذاق نہیں۔تم سمجھتے ہو کہ یہ محض شاعری ہے جسے زمانے کی گردشیں خود بخود مٹا دیں گی۔ام یقولون شاعر نتربصون بہ ریب المنون(52/30) ۔یہ غلط ہے فلا اقسم بما تبصرون وما لا تبصرون۔وہ تمام حقائق جو تمہاری آنکھوں کے سامنے آچکے ہیں جن کا احاطہ تمہاری بصیرت کر سکتی ہے اور وہ حقائق جو تمہاری نگاہوں سے مستور ہیں وہ سب اس حقیقت پر شاہد ہیں کہ : انہ یقول رسول کریم وما ھو بقول شاعر(69/39تا40)۔یہ قرآن ایک واجب التکریم پیمبر کی وساطت سے پہنچنے والے ابدی حقائق کا مجموعہ ہے، محض شاعرانہ تخیلات کا نگاہ فریب مرقع نہیں۔ولا بقول کاھن(69/43)۔نہ ہی یہ کسی اٹکل پچو باتیں بنانے والے نجومی کی قیاس آرائیاں ہیں بلکہ تنزیل من رب العالمین (69/43)۔یہ اُس اللہ کی طرف سے نازل کردہ قوانین کا ضابطہ ہے جو تمام کائنات کا نشو ونما دینے والا ہے۔ہر شے کو آہستہ آہستہ، بتدریج اُس کے نقطۂ آغاز سے ، معراج ِ تکمیل تک پہنچانے والا۔اس قسم کے حقائق نہ کوئی شاعر دے سکتا ہے نہ سر پھرا دیوانہ۔ویقولون ائنا لتارکو آاٰ لھتنا لشاعر مجنون(37/36)،،،،،،،،بل جآ بالحق(37/37)۔یہ وہی دے سکتا جو اللہ کی طرف سے تعمیری نتائج پیدا کرنے والی مثبت حقیقت لایا ہو۔وما علمنہ الشعر وما ینبغی لہ، ہم نے اپنے رسول کو شاعری نہیں سکھائی، نہ ہی شاعری اسے زیب دیتی ہے۔جو زندگی بخش ، حیات آور، پیغامِ انقلاب کا حامل ہواسے شاعری سے کیا واسطہ؟ ان ھو الّا ذکر و قراٰن مبین، یہ ان ابدی حقیقتوں کی یاد دہانی ہے جنہیں تم نے فراموش کر رکھا ہے۔یہ ایک ضابطۂ زندگی ہے جو اپنی بات کو نہایت ابھرے اور نکھرے ہوئے انداز سے تمہارے سامنے پیش کرتا ہے۔لینذرمن کان حیا و یحق القول علی الکافرین (36/69تا70)۔تاکہ ہر اُس شخص کو جس میں زندگی کی رمق باقی ہے ، غلط روش پر چلنے کے ہلاکت انگیز عواقب سے آگاہ کردے۔اور جو لوگ اس کے باوجود اسی غلط روش پر چلتے جائیں وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں کہ جو کچھ اس نے کہا تھا وہ کس طرح حقیقت پر مبنی تھا۔اس لئے کہ:انہ لقول فصل وما ھو بالھزل(86/13تا 14)۔یہ فیصلہ کن بات کرتا ہے ۔یونہی مذاق نہیں کرتا۔چونکہ تم غور فکر سے کام نہیں لیتے اس لئے اس کی عظمت کا اندازہ نہیں کر سکتے۔اس کی عظمت اور اثر انگیزی کا تو یہ عالم ہے کہ لو انزلنا ھٰذا القرآن علی جبل لرایتہ خاشعاً متصدعاً خشیۃ اللہ (59/21)۔اگر مثال کے طور پر،ہم اسے قلبِ کوہ کے اندر رکھ دیتے اور اسے احساس عطاکردیتے تو تُو دیکھتا کہ اسکی خلاف ورزی کے ہلاکت آفرین نتائج کے احساس سے اس کی سختی کس طرح نرم پڑ جاتی اور کس طرح اس کا جگر شق ہوجاتا۔اس لئے کہ انہ لقول فصل وما ھو بالھزل۔فصل کے معنی ہوتے ہیں الگ الگ کر دینا،متمیز کر دینا، حق کو باطل سے جدا کرکے دکھا دینا، غلط کو صحیح سے الگ کرکے بتا دینا۔اسی کے لئے دوسری جگہ کہا:حٰم۔والکتاب المبین۔یہ ایک ایسا ضابطۂ قوانین ہے جو خود بھی واضح ہے اور جو ہر بات کو نہایت وضاحت اور صراحت سے ابھار کر اور نکھار کر بیان کردیتا ہے۔انا انزلنہ فی لیلۃ مبارکۃ انا کنا منذرین۔ہم نے ان کا آغاز نزول (رمضان کے مہینے کی ایک) ایسی شب میں کیا جو تمام نوعِ انسان کے لئے نہایت برکت و سعادت کا موجب بن گئی ہے۔ یہ کتاب ہمارے اُس قانون (سنت اللہ) کے مطابق نازل ہوئی جس کی رُو سے ہم شروع سے انسان کو اس کی غلط روش کے تباہ کن نتائج سے آگاہ کرتے چلے آرہے ہیں فیھا یفرق کل امر حکیم (44/1تا 4)۔اس میں ان تمام امور کو جو حکمت پر مبنی ہیں(غلط امور سے)الگ الگ کرکے رکھ دیا گیا ہے۔
یہاں اسے" لیلۃ مبارکہ" کہا ہے ۔دوسری جگہ ہے انا انزلنہ فی لیلۃ القدر(97/1)۔ہم نے اسے لیلۃ القدر میں نازل کیا۔اگرچہ لیل کے معنی رات کے ہیں، لیکن اس سے مراد تمام زمانہ بھی ہوسکتا ہے جس میں قرآن نازل ہوتا رہا۔اسے لیل سے اس لئے تعبیر کیاگیا کہ جس زمانے میں انسانوں کے پاس اللہ کی وحی کی روشنی نہ رہے وہ اندھیری رات کی طرح تاریک ہوتا ہے۔وحی کی روشنی آتی ہی تاریکیوں کے بعد ہے۔اس کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ نوع انسان کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لے آئے،یخرجھم من الظلمٰت الی النور (5/16)۔نیز اس سے مراد وہ دور بھی ہوسکتا ہے جس میں قرآن تو کسی قوم کے پاس موجود ہو ، لیکن اس پر عمل نہ ہو رہا ہو جیسا ہمارا دور ہے۔بہرحال ، قرآن کا نزول ، تاریکی کے دور میں ہوا تاکہ اُن انسانوں کے لئے ، جو دیکھ بھال کر راستہ چلنا چاہیں ، روشنی مہیا کر دے۔
دوسرا لفظ "قدر" ہے جس کے معنی ہیں پیمانہ۔یعنی قرآن نے نوع انسان کو حق و باطل کے ماپنے کے صحیح صحیح پیمانے عطا کئے ہیں۔اس نے وہ مستقل اقدار (پرماننٹ ویلوز) دی ہیں جن کے مطابق زندگی بسر کرنا مقصود ِ انسانیت ہے۔حقیقت یہ ہے کہ مستقل اقدار ہی وہ لنگر ہیں جن کے سہارے انسانی زندگی کی کشتی ، حوادث ِ زمانہ کی طوفان انگیزیوں سے محفوظ رہ سکتی ہے۔یہ بات بادنیٰ تعمّق سمجھ میں آجائے گی کہ خارجی کائنات کی ہر شے وہ کچھ بن جاتی ہے جس نگاہ سے ہم اسے دیکھیں۔اقبال کے الفاظ میں؎
اے کہ منزل رانمی دانی زراہ قیمت ِ ہر شے زاندازِ نگاہ
نوعِ دیگر بیں جہاں دیگر شود ایں زمین و آسماں دیگر شود
معاملات کے فیصلوں کے لئے کوئی مستقل پیمانہ (قانون) ہونا چاہئے جو افراد کے مزاج اور طبائع سے قطعاً متاثر نہ ہو۔ان پیمانوں کو "مستقل اقدار" کہتے ہیں جو وحی کی رُو سے ملتی ہیں اور جن میں اور تو اور خود نبی کے ذاتی خیالات و جذبات کا بھی کوئی دخل نہیں ہوتا ، وما ینطق عن الھوٰی(53/3)۔ان مستقل اقدار کو میزانِ زندگی قرار دینے والوں کی یہ کیفیت ہوتی ہے کہ ؎
وہ تری گلی کی قیامتیں کہ لحد کے مُردے اکھڑ گئے
یہ مری جبینِ نیاز ہے کہ جہاں دھری تھی ، دھری رہی
ان پر خارجی حوادث کی تلاطم خیزیوں اور طوفان انگیزیوں کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔
یہ ہے وہ لیلۃ القدر، مستقل اقدار والی رات، جس میں قرآن نازل ہوا۔وما ادرٰک مالیلۃ القدر۔لیلۃ القدر ، خیر من الف شھر۔ اس حقیقت کو اللہ کے سوا اور کون بیان کر سکتا ہے کہ وہ رات جس میں نزول قرآن کاآغاز ہو، اس دور کے ہزار مہینوں سے بہتر ہے جس میں انسان وحی کی روشنی سے محروم ہو۔وہ دور جو قرآن کی روشنی سے منور ہو، انسانی جہالت اور ظلمت کے ہزار زمانوں سے افضل ہے۔حقیقت یہ ہے کہ نزولِ قرآن سے انسانی تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ ہوا ہے۔بعثِ محمدیہؐ زمانۂ قبل از قرآن اور بعد از نزولِ قرآن میں ایک حدِ فاصل ہے جس سے دونوں دور نمایاں طور پر الگ الگی دکھائی دیتے ہیں۔نزول ِ قرآن کے بعد کے زمانے کی خصوصیت یہ ہے کہ تنزل الملائکۃ والروح فیھا باذن ربھم۔اس میں آہستہ آہستہ ، قانونِ الٰہی کے مطابق ، ملائکہ اور روح کا نزول ہوتا ہے۔
ملائکہ سے مفہوم وہ کائناتی قوتیں ہیں جو اللہ کے پروگرام کو تکمیل تک پہنچانے میں سرگرمِ عمل رہتی ہیں۔کائناتی قوتوں کی کارفرئیاں دیکھئے ، جس سرعت اور وضاحت سے ، زمانۂ بعد از نزول قرآن میں بے نقاب ہوئی ہیں، زمانۂ قبل از قرآن کے ہزار ہا سال میں اس کا عشر عشیر بھی انسانوں کے سامنے نہیں آسکا۔
باقی رہا" الروح" ، سو اس سے مراد خود وحی کی قوت ہے۔اس ضمن میں بھی غور کرنے سے یہ حقیقت واضح ہوجائے گی کہ جس تیزی سے ، زمانۂ بعد از قرآن میں، اقوامِ عالم ، غیر شعوری طور پر ، یعنی عقل کے تجرباتی طریق سے، وحئ الٰہیہ یعنی قرآن کے قریب آتی جارہی ہیں، اس سے پہلے دور میں اس کی مثال نہیں ملتی۔دیکھئے کہ زمانۂ قبل از قرآن میں ،مثلاً، ملوکیت ، شخصیت پرستی، نسل پرستی، اسلاف پرستی، قومیت پرستی، ذات پات کی تمیز، پیشوائیت، سرمایہ داری جیسے عناصر، انسانی زندگی کے مسلّمات میں شمار ہوتے تھے، لیکن زمانۂ نزولِ قرآن کے بعد اقوامِ عالم کس طرح ان "مسلّمات" کو آہستہ آہستہ چھوڑ چکی ہیں یا چھوڑ تی چلی جا رہی ہیں۔
اس کے بعد قرآن یہ بتاتا ہے کہ کائناتی قوتوں کے عمل اور طریق کار کے بے نقاب ہونے اور وحئ الٰہیہ کے مطابق نظامِ زندگی کی تشکیل کا نتیجہ کیا ہوتا ہے؟ اس کا نتیجہ ہوتا ہے من کل امر سلام۔سلام ایک جامع لفظ ہے جس کے معنی امن و سلامتی بھی ہیں اور تکمیلِ ذات بھی۔ضبطِ خویش بھی ہیں اوراحترامِ آئین و قوانین بھی ۔قرآن کہتا ہے کہ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ کائنات کے ہر گوشے ، اور زندگی کے ہر شعبے میں، سلام کی کیفیت پیدا ہوجائے گی۔ھی حتّٰی مطلع الفجر (97/1تا5)۔تاآنکہ رات کی تاریکیاں چھٹ کر ساری فضا صبح کی روشنی سے معمور ہوجائے۔یہاں قرآن نے من کل امر سلام کہا ہے۔سورۂ مائدہ میں ہے قد جآء کم من اللہ نور و کتٰب مبین۔تمہاری طرف اللہ کی جانب سے ایک روشنی آگئی ہے یعنی واضح کتاب، روشنی خود روشن ہوتی ہے ،یعنی اسے تلاش کرنے اور دیکھنے کیلئے کسی دوسری روشنی کی ضرورت نہیں ہوتی۔اس کے لئےدیکھنے والی آنکھ کی ضرورت ہوتی ہے۔اسی طرح قرآن کو سمجھنے کیلئے کسی خارجی ذریعے کی ضرورت نہیں ،صرف عقل و فکر انسانی کی ضرورت ہے۔ وہ کتاب مبین، واضح کتاب،ہے۔ یھدی بہ اللہ من اتبع رضوانہ سبل السلام۔ اس کے ذریعے اللہ ہر اس قوم کو جو اس کے قوانین کا اتباع کرے، سلامتی ، سلام، کے راستوں کی طرف راہ نمائی کرتا ہے۔و یخرجھم من الظلمٰت الی النور باذنہ۔اور اپنے قانون کی رُو سے انہیں تاریکیوں سے نکال کر روشنی کی طرف ان کی راہ نمائی کر دیتا ہے۔(یہاں صراط مستقیم کہا ہے ، سورۂ بنی اسرائیل میں ہے ان ھٰذا القراٰن یھدی للتی ھی اقوم (17/9)۔یقیناً یہ قرآن ، کاروانِ انسانیت کی اس راہ کی طرف راہ نمائی کرتا ہے جو اقوم ہے۔قام (وہ کھڑا ہوا) قیام، قیامت، تقویم (ساخت، ہیئت کذائی) قوام وغیرہ الفاظ کی بنیاد میں توازن کا مفہوم مضمر ہوتا ہے۔کھڑا وہی رہ سکتا ہے جس کا توازن درست ہو۔قوام میں بھی اعتدال کا پہلو نمایاں ہوتا ہے۔اگر کسی شے کے اجزاء کے توازن و تناسب میں ذرا سا بھی فرق آجائے تو اس میں فساد ہی فساد رونما ہوجاتا ہے۔یہی تناسب و توازن انسانی معاشرے کا بھی اصل الاصول ہے۔)
یہ نورانیت سب سے پہلے عہدِ محمد ﷺ والذین معہ میں وجۂ تابانئ عالم ہوئی تھی، جس سے زندگی کے تاریک گوشے بھی چمک اٹھے تھے۔وہ انقلاب نبی اکرم ؐ کی بے مثال قوتِ عمل اور بے نظیر سیرت و کردار سے ہنگامی طور پر ظہور میں آگیا تھا۔لیکن اس کے بعد ، یہ انقلاب ، بارِ دیگر، آہستہ آہستہ ارتقائی طور پر رونما ہوگا، جب انسان ، اپنے غلط تجارب کے تباہ کن نتائج سے متاثر ہوکر ، وحی کے بتائے ہوئے راستے پر آئے گا۔قرآن کا کہنا ہے کہ ایسا ہو کر رہے گا۔اس دور میں؎
آسماں ہوگا سحر کے نور سے آئینہ پوش
اور ظلمت رات کی سیماب پا ہو جائے گی
اس قدر ہوگی ترنّم آفریں بادِ بہار
نکہت خوابیدہ غنچے کی نوا ہوجائے گی
شب گریزاں ہوگی آخر جلوۂ خورشید سے
یہ جہاں معمور ہوگا نغمۂ توحید سے
واشرقت الارض بنور ربھا(39/69)۔اس وقت زمین اپنے پروردگار کے نور سے جگمگا اٹھے گی۔
Go to group website
Remove me from the group mailing list
__._,_.___
Enjoy your stay at Rukhsana Group.
**********************************
Moderators Rukhsana Group:
Kazakhstani1303 & Mumtaz Ali.
Contact us at: kazakhstani1303@gmail.com
Rukhsana-owner@yahoogroups.com
**********************************
**********************************
Moderators Rukhsana Group:
Kazakhstani1303 & Mumtaz Ali.
Contact us at: kazakhstani1303@gmail.com
Rukhsana-owner@yahoogroups.com
**********************************
.
__,_._,___
0 comments:
Post a Comment